انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑا رہا ہے کہ آج کل ہمارے اس معاشرے میں بہت ساری ایسی روایات ہماری زندگی کا لازمی جز بن چکی ہیں جن کی سرے سے کوئی مضبوط بنیاد ہی نہیں ہے۔ یہ رسمیں اور رواج فضول ہیں اور شریعت مطہرہ کی پاکیزہ تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں۔ ایسی بہت سی رسمیں جو بالکل غلط اور ناجائز ہیں، ہمارے زندگی کا لازمی اور اہم حصہ بن چکی ہیں۔ انہی بے ہودہ رسومات میں سے ایک رسم بھاری بھرکم ’’جہیز‘‘ کی بھی ہے۔ جہیز کے حوالے سے جو اسلامی تعلیمات ہیںاور جو جہیز کی شرعی اعتبار سے حیثیت ہے اور اس سلسلے میں بزرگانِ دین کی کیا تعلیمات ہیں، اس پر تفصیل سے گفتگو پیش ذیل ہے۔ سب سے پہلے تو اس سوال کا جواب دینا ضروری ہوگا کہ جہیز کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ شرعی اعتبار سے جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے کوئی تحفہ اپنی استطاعت کے مطابق دینا چاہے تو دیدے اور ظاہر ہے کہ تحفہ دیتے وقت لڑکی آئندہ ضروریات کو مدنظر رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے لیکن نہ وہ شادی کیلئے کوئی لازمی شرط، نہ سسرال والوں کو کوئی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کا مطالبہ کریں اور اگر لڑکی کو جہیز نہ دیا جائے یا کم دیا جائے تو اس پر برا منائیں یا لڑکی کو طعنے دیں اور نہ یہ کوئی دکھاوے کی چیز ہے کہ شادی کے وقت اس کی نمائش کرکے اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا جائے۔اس سلسلے میںہمارے معاشرے میں جو غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں اور مجھے تو لگتا ہے کہ ناقابل تلافی ہیں مثلاً1۔جہیز کو لڑکی کی شادی کیلئے ایک لازمی شرط سمجھا جاتا ہے‘ چنانچہ جب تک جہیز دینے کیلئے پیسے نہ ہوں، لڑکی کی شادی نہیں کی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی لڑکیاں اسی وجہ سے بن بیاہی رہتی ہیں کہ باپ کے پاس دینے کیلئے جہیز نہیں ہوتا اور اگر شادی سرپر آہی جائے تو منحوس ’’جہیز‘‘کی شرط کو پورا کرنے کیلئے باپ کو بعض اوقات روپیہ حاصل کرنے کیلئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا پڑتے ہیں اور وہ رشوت سازی، جعلسازی، دھوکہ فریب جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اگر کوئی باپ اتنا باضمیر ہے کہ ان ناجائز ذرائع کو استعمال نہیں کرنا چاہتا تو کم از کم خود کو قرض کے شکنجے میں جکڑنے پر مجبور ہوتا ہے۔2۔جہیز کی مقدار اور اس کیلئے لازمی اشیاء کی فہرست میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب جہیز محض بیٹی کیلئے باپ کا تحفہ نہیں جو وہ اپنی خوش دلی سے اپنی استطاعت کی حد
میں رہ کر دے بلکہ اس بگڑے ہوئے معاشرے کا ایک جبر ہے‘ چنانچہ اس میں صرف بیٹی کی ضروریات ہی داخل نہیں بلکہ اس کے شوہر کی ضروریات پوری کرنا اور اس کے گھر کو فرین کرنا بھی ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ خواہ باپ کا دل چاہے یا نہ چاہے۔ اسے یہ تمام لوازم پورے کرنے پڑتے ہیں۔3۔بات صرف اتنی نہیں ہے کہ لڑکی کی ضروریات پوری کر کے اس کا دل خوش کیا جائے بلکہ جہیز کی نمائش کی رسم نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ ہر چیز دیکھنے والے کا دل خوش ہو اور وہ اس کی تعریف کرسکے۔4۔جہیز کے سلسلے میں سب سے گھٹیا بات یہ ہے کہ لڑکی کا شوہر یا اس کے سسرال کے لوگ جہیز پر نظر رکھتے ہیں، بعض جگہ تو شاندار جہیز کا مطالبہ پوری ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے اور بعض جگہ اگر صریح مطالبہ نہ ہو تب بھی توقعات یہ باندھی جاتی ہیں کہ دلہن اچھا سا جہیز لے کر آئے گی اور اگر یہ توقعات پوری نہ ہوں تو لڑکی کو طعنے دے دےکر اس کے ناک میں دم کردیا جاتا ہے۔
جہیز کے ساتھ اس قسم کی جو رسمیں اور تصورات نتھی کر دیئے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے جو معاشرتی خرابیاں جنم لیتی رہی ہیں ان کا احساس ہمارے معاشرے کے اہل فکر میں مقصود نہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے اور بعض تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں بلکہ سرکاری سطح پر بعض قوانین بھی بنائے گئے ہیں اور ان کوششوں کا یہ اثر الحمد للہ ضرور ہوا ہے کہ اب جہیز کے بارے میں لوگوں کے بہت سے تصورات میں تبدیلی آچکی ہے۔ جہیز
کی نمائش کا سلسلہ کم ہوا ہے۔ بین الممالک شادیوں میں جہیز کی پابندی حالات کے جبر نے ترک کرادی ہے، لیکن ابھی تک معاشرے کے ایک بڑے حصے میں ان غلط تصورات کی حکمرانی ختم نہیں ہوئی۔بعض حضرات یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جہیز کو قانوناً بالکل ممنوع قرار دیا جائے لیکن دراصل یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اس قسم کے مسائل صرف قانون کی جکڑ بند سے حل نہیں ہوتے اور نہ ایسے قوانین پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کیلئے تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک مناسب ذہنی فضا تیار کرنی ضروری ہے، بذات خود اس بات میں کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی بھی نہیں ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اپنے دل کے تقاضے سے اسے ایسی چیزوں کو تحفہ پیش کرے جو اس کیلئے آئندہ زندگی میں کارآمد ہوں، خود حضور پاکﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدۃ النساء اہل جنۃ کو سادگی کے ساتھ کچھ جہیز عطا فرمایا تھا۔ شرعی اعتبار سے اس قسم کے جہیز کیلئے کوئی مقدار بھی مقرر نہیں ہے اور اگر دوسرے مقاصد نہ ہوں تو باپ اپنے دلی تقاضوں کے تحت جو کچھ دینا چاہے دے سکتا ہے لیکن خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ اوّل تو اسے نمود و نمائش کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور ان نہ ملنے پر لڑکی کو مطعون کرتے ہیں۔ جہیز کی ان خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے معاشرے کے تمام طبقات کو ان تصورات کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا۔ یہاں تک کہ یہ گھٹیا باتیں ہر کس و ناکس کی نظر میں ایسا عیب جائیں جس کی اپنی طرف نسبت سے لوگ شرمانے لگیں کسی بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے غلط تصورات یا بری عادتیں اسی طرح رفتہ رفتہ دور ہوتی ہیں کہ اس معاشرے کے اہل اقتدار، اہل علم و دانش اور دوسرے بارسوخ و باوثوق طبقے مل جل کر ایک ذہنی فضا کرتے ہیں یہ ذہنی فضا رفتہ رفتہ فروغ پاتی ہے اور لوگوں کی تربیت کرتی ہے لیکن اس کیلئے درد منددل اور ان تھک جدوجہد اور کوشش درکار ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ان طبقوں کے بیشتر افراد کچھ ایسے مسائل میں اُلجھ گئے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح و تربیت کا کام جو کسی بھی قوم کی تعمیر کیلئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کی شمار قطار میں نظر نہیں آتا۔ لیکن اس صورتحال میں مایوس ہوکر بیٹھ جانا بھی درست نہیں۔ ایک داعی حق کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہنے سے نہ اُکتائے اپنے دائرے کی حد تک کام کرنے سے نہ تھکے بالآخر ایک وقت آتا ہے جب حق و صداقت کی کشش دوسروں کو بھی اپنی طرف کھینچنا شروع کردیتی ہے اور قوموں کی نہ صرف سوچ بلکہ عمل میں بھی انقلاب آجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں